وہ کام ہوگیا جو پچھلے 2800 سال میں نہ ہوا تھا، سائنسدانوں نے خطرے کی گھنٹی بجادی، دنیا والوں کو بڑی آفت کی پیشنگوئی کردی
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) انسان کی جدید ایجادات نے موسمیاتی تبدیلی کو اس دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا دیا ہے۔ ماہرین کافی عرصے سے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے اقدامات نہ کیے جانے کی صورت میں سنگین نتائج کی تنبیہ کرتے آ رہے ہیں۔اب امریکی سائنسدانوں نے اسی حوالے سے ایک بڑے خطرے سے آگاہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ”اگرچہ گزشتہ 28صدیوں سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے لیکن اتنے عرصے میں سمندر کی سطح اتنی بلند نہیں ہوئی تھی جتنی حالیہ چند دہائیوں میں ہو چکی ہے اوراگر کاربن کااستعمال کم کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کو نہ روکا گیا تو آئندہ چند دہائیوں تک دنیا تباہی کے دہانے پر ہو گی۔“ ماہرین کا کہنا تھا کہ ”امریکی ساحلی علاقوں میں مدوجزر کی بڑی لہروں کے باعث آبادیوں کے زیرآب آنے کی یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر کی سطح بہت زیادہ بلند ہو چکی ہے۔ انسان جتنی تیزی سے کوئلے، گیس و تیل جیسی ایندھنوں کا استعمال کر رہا ہے اتنی ہی تیزی سے گرین ہاﺅس گیسیں ختم ہو رہی ہیں اوراس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کی شدت میں اضافے کے باعث اسی رفتار سے سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے
مزیدجانئے: دنیا کا وہ قبیلہ جو آج بھی سمجھتاہے کہ بچوں کی پیدائش کا جنسی عمل سےکوئی تعلق نہیں بلکہ۔۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ”سمندر کی سطح میں قدم روم کے زمانے سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اگر انسان مذکورہ ایندھنوں کا استعمال ترک کردیں تو سمندر کی سطح بلند ہونے کی شرح انتہائی گر جائے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جائے۔اس وقت میامی، چارلسٹن اور نورفوک (NorFolk) جیسے ساحلی علاقوں میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے اور مدوجزر کی بلند لہروں کے باعث انسانی آبادیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ ان علاقوں میں گرم دنوں میں بھی مدوجزر کی لہریں کم نہیں ہوتیں۔ اگرچہ ان لہروں کی وجہ سے آبادیوں میں ایک سے دو فٹ سمندری پانی کھڑا ہو جاتا ہے مگر اس کھارے پانی سے ان علاقوں میں درخت اور سبزہ ختم ہوئے جا رہے ہیں اورشہریوں کو میٹھے پانی کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے، جس سے انسانی زندگی کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔ان علاقوں میں ہونے والی تباہی آئندہ آنے والی بڑی تباہی کی ہلکی سی جھلک ہے۔“سائنسدان بنجامن ایچ سٹراﺅس کا کہنا ہے کہ ”ہمیں ساحلی علاقوں میں آنے والے سمندری سیلاب کو ایک نئے زاوئیے سے دیکھنے اور اس پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔درحقیقت یہ سیلاب مدوجزر یا تیز ہواﺅں کی وجہ سے نہیں آ رہے بلکہ اس کی وجہ ہم خود ہیں اور اگر ہم نے کاربن پیدا کرنے والے ایندھنوں کا استعمال کم کر کے موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے توآئندہ چند عشروں میں ہم بڑی تباہی سے دوچار ہوں گے۔“